Tuesday, 11 June 2019
Sunday, 12 March 2017
Furniture buy and read a lot: Shopping online will come
Furniture buy and read a lot: Shopping online will come: .The news of every kind, all of the children's stories, the reality of earning online, health, furniture world tour, poetry, on the co...
Tuesday, 8 November 2016
ALLAH_NAMES: ALLAH_NAMES
ALLAH_NAMES: ALLAH_NAMES: اللہ تعالٰی کے ناموں کی صفات شاعری کی صورت میں The names of the attributes of God in poetry یارب میرے دل کا تو نور بن جا...
Thursday, 24 December 2015
ریاض
ریاض
حکومت
- میئر عبداللہ بن عبدالرحمان
- گورنر منطقہ ریاض فیصل بن بندر آل سعود
رقبہ
- کُل 501.9 میل2 (1,300 کلومیٹر2)
بلندی 612 میٹر (2,008 فٹ)
آبادی (2010)[1]
- کُل 5,700,000
منطقۂ وقت عربیہ معیاری وقت (یو ٹی سی+3)
پوسٹل کوڈ (5 ہندسیں)
رموز علاقہ +966-11
ویب سائٹ www.arriyadh.com
ریاض، سعودی عرب
ریاض مملکت سعودی عرب کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر ہے جو علاقہ نجد کے صوبہ الریاض میں واقع ہے۔ 2005ء، سعودی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق ریاض شہر کی آبادی بیالیس لاکھ ساٹھ ہزار ہے جو سعودی عرب کی کل آبادی کا 20 فیصد ہے۔
تاریخ
اسلام سے پہلے کے ادوار میں یہ علاقہ ہجار کے نام سے آباد تھا۔ علاقہ موسمی ندیوں سے سراب ہوتا ہے، اور کئی علاقوں میں زیر زمین پانی تک رسائی ممکن ہے۔ تاریخی اعتبار سے علاقہ باغیچوں اور کھجور کے لیے مشہور تھا، اور ریاض کے معنے بھی باغ کے ہیں۔ موجودہ نام شروع میں صرف چند علاقوں کے لیے استعمال کیا گیا جہاں باغات تھے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سارا علاقہ ہی اسی نام سے جانا جانے لگا۔
اٹھارویں صدی عیسوی تک ریاض، سعودی ریاست کا حصہ تھا جسکا دارالحکومت درعیہ تھا۔ 1818ء میں ترکوں کے ہاتھوں درعیہ کی تباہی کے بعد ریاض کو دارالحکومت بنایا گیا۔ 1902ء سے عبدالعزیز بن عبدالرحمن السعود نے تعمیر نو شروع کی اور ریاض دارالحکومت کے ساتھ 1932ء میں جدید سعودی عرب کی بنیاد ڈالی۔ سفارتی دارالخلافہ 1982ء تک جدہ ہی رہا۔ 1960ء میں شہر کی آبادی جو پچاس ہزار نفوس پر مشتمل تھی اب بڑھ کر پنتالیس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے، جسکی وجہ سے شہر کو کئی تکنیکی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، کیونکہ شہر کی منصوبہ بندی آبادی بڑھنے کی اتنی تیز رفتار کو مدنظر رکھ کر نہیں کی گئی تھی۔
کسی دور کا ایک چھوٹا قصبہ اب دنیا کے بڑے شہروں میں شامل ہو چکا ہے۔ آبادی میں پہلا بڑا اضافہ 1950ء میں تیل کی دولت کے استعمال کی شروعات سے ہوا جب قدیم حصوں کو گرا کر جدید صنعتی تعمیرات کا آغاز کیا گیا۔ آج ریاض دنیا کے تیزی سے بڑھتے شہروں میں سے ایک ہے۔
شہری انتظام
شہر کو 17 انتظامی میونسپلٹیوں میں تقسیم کیا گیا ہے جو مرکزی ریاض میونسپلٹی اور ریاض ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے تحت کام کرتی ہیں جسکا سربراہ صوبہ ریاض کا گورنر ہوتا ہے۔ ہر میونسپلٹی اپنے علاقہ کے انتظامات کی زمہ دار ہے، اور ان میں سے ہے علاقہ اپنی سی خصوصیات رکھتا ہے۔ ان میں سے چند ایک اہم علاقہ درج ذیل ہیں۔
البطحا شہر کا مرکز ہے، اور شہر کا قدیم ترین علاقہ ہے، اور یہاں ہی قصرالمسمک واقع ہے جو انیسویں صدی عیسوی میں حکمران السعود خاندان کی رہائش گاہ رہا۔ یہ سیاحوں کی لیے خاص کشش لیے ہوۓ ہے، اسکے علاوہ مغرب میں ریاض کا عجائب گھر واقع ہے۔
علیا ڈسٹرک شہر کا روح رواں ہے جو شہر کا صنعتی اور رہائشی علاقہ کہا جا سکتا ہے۔ جو خریداری و تفریح کے مواقع لیے ہوۓ ہے۔
سفارتی علاقہ (Diplomatic Quarter or DQ) غیر ملکی سفارتخانوں کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔ اسکے علاوہ یہاں موجود باغوں اور کھیل کے میدانوں کی وجہ سے اسکو شہر کا سر سبز و شاداب علاقہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ علاقہ اسلامی دنیا کے لیے ایک شہر نمونہ کے طور پر ہے۔
قصرالحکم وہ علاقہ ہے جہاں اسی نام کا انصاف محل موجود ہے جہاں گورنر عام لوگوں سے ملتا ہے اور انکے مسائل سن کر حل کے لیے احکامات جاری کرتا ہے۔ یہ علاقہ بھی اپنی قدیم عمارتوں کی وجہ سی خاصی شہرت رکھتا ہے۔
الخبر زیادہ تر غیر ملکی تارکین وطن کا پسندیدہ علاقہ ہے۔
الدرا کا علاقہ کاروباری مراکز اور روائتی عمارتوں کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے اور یہاں ہی مشہور زمانہ شاہی محل الموئکلہ واقع ہے۔
صلاح الدین کا علاقہ اپنے کاروباری مراکز اور ہوٹلوں کی وجہ سے غیر ملکی سیاحوں سے بھرا رہتا ہے۔
موسمیات
ریاض چونکہ ریگستان میں ہے اور دنیا کی وسطی علاقوں میں سے ہے اس لئے یہاں سورج زیادہ پڑتا ہے اورگرمی زیادہ ہوتی ہے۔ریاض میں گرمی کا موسم سب سے زیادہ مدّت تک رہتا ہے تاہم سردی بھی بہت سخت ہوتی ہے لیکن سردی کا موسم کم عرصے تک رہتا ہے۔
مآخذ: مردم شماری ڈیٹا
ریاض شہر کی آبادی 1935 میں 40 ہزار تھی اور1949 میں 83 ہزار تک پہنچی۔شہر کی آبادی کہیں دہائیوں میں تیزی سے بڑھتی گئی 1960 میں آبادی 5 ملین سے تجاوز کرگئی۔
اہم عمارات
ریاض ٹی وی ٹاور 170 میٹر بلند ٹیلیویژن کا نشریاتی مینار ہے جو 1978ء سے 1981ء کے درمیان تعمیر کیا گیا۔
الفیصلیا مرکز بلند و بالا عمارات میں سے پہلی تعمیر ہے جو اب شہر کی دوسری سب سے اونچی عمارت ہے۔ عمارت کے اوپر گیند نما گنبد بنایا گیا ہے جسکے اندر ریٹورینٹ ہے اور نیچے والی منزلوں میں بین الاقوامی معیار کا خریداری مرکز بنایا گیا ہے۔
برج المملکہ یا کنگڈم سینٹر سعودی عرب کی موجودہ سب سے اونچی عمار ت ہے۔
الراجی ٹاور زیر تعمیر ہے جو 2009ء میں مکمل ہونے کے بعد سعودی عرب کی سب سے اونچی عمارت ہو گا۔
شاہ خالد بین الاقوامی ائر پورٹ یا کنگ خالد انٹرنیشنل ائر پورٹ
شاہ فہد سٹیڈیم یا کنگ فہد اسٹیڈیم
قصرالمسمک
شاہ الحکم یا قصرالحکم
دیرا چوک، دیرا مسجد کے سامنے وہ جگہ ہے جہاں مجرموں کا سر کاٹ کر جدا کیا جاتا ہے۔
Subscribe to:
Posts (Atom)